آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رخ گردشِ ایام کے

ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزش غم کے لئے
کر رہے ہیں زخم دل فریاد مرہم کے لئے

صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں

اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں

رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا

اک نظر ہو جائے آقا! اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر

خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے

خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں

حق پرستوں کی اگر کی تونے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

آغا محمد حشر ابن آغا غنی شاہ بنارس 1879ء


آغا محمد حشر ابن آغا غنی شاہ بنارس میں 1879ء میں پیدا ہوئے تعلیم و تربیت بنارس میں ہوئی۔ آپ کے والد مذہبی معاملات میں قدامت پسند تھے۔ اس لیے آغا حشر ابتدا میں انگریزی تعلیم سے محروم رہے۔ دینیات کی تعلیم مولوی عبد الصمد سے حاصل کی اور سولہ پارے حفظ کیے۔
آغا حشر موزوں طبیعت رکھتے تھے۔ چھوٹی عمر میں شعر کہنے لگے اور فائز بنارسی کو کلام دکھانے لگے۔ مہدی حسن احسن لکھنوی مشہور ڈراما نویس سے جھڑپ ہوجانے پر ڈراما نگاری کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ 1897 میں آپ کا پہلا ڈراما (آفتاب محبت) کے نام سے شائع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ آغا حشر نے انیس سال کی عمر میں ڈراما نگاری میں نام پیدا کر لیا تھا تاہم وہ آگے چل کر اردو زبان کے شیکسپئر کہلائے۔ آغا حشر نے انگریزی زبان سیکھی اور شیکسپئر اور دیگر غیر ملکی ڈراما نویسیوں کے ڈرامے پڑھے اور بعض کا اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی لکھیں۔ 1935ء میں لاہور میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔
آغا حشر نے بے شمار ڈرامے لکھے جن میں خواب ہستی، رستم و سہراب، مرید اشک، اسیر حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا، سفید خون بہت مشہور ہوئے۔

COMMENTS

Subscribe
Notify of
guest

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x