مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

غلامانِ محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دلِ گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ

کہاں میں اور کہاں اس روضہِ اقدس کا نظّارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ

مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ، فضا سنجیدہ سنجیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبؔال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ

پروفیسر سیّد اقبؔال عظیم

COMMENTS

Subscribe
Notify of
guest

3 Comments
Newest
Oldest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
3
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x